"بنی اسرائیل: وہ قوم جس نے معجزہ دیکھا مگر ایمان نہ لائی"
بنی اسرائیل:
وہ قوم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا – پھر بھی ایمان نہ لائی!
تعارف:
بنی اسرائیل کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام (جنہیں اسرائیل کہا جاتا ہے) کی نسل سے ہیں۔ یہ قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بہت سی نعمتوں سے نوازا، انہیں پیغمبروں کی رہنمائی عطا کی، معجزات دکھائے، مگر اس کے باوجود یہ قوم بار بار نافرمانی کا مظاہرہ کرتی رہی۔
---
1. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مشن اور بنی اسرائیل کی رہائی
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ وہ فرعون کے دربار میں جائیں اور اس سے بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کا مطالبہ کریں۔ فرعون، جو خود کو خدا سمجھتا تھا، نے انکار کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون پر مختلف قسم کے عذاب نازل کیے جیسے ٹڈی دل، خون، مینڈک، جوئیں اور قحط۔ ان سب کے باوجود فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات نہ مانی۔ بالآخر اللہ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو رات کے وقت مصر سے نکال لیں۔
---
2. سمندر کا معجزہ: بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے اللہ کی قدرت
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر نکلے تو فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے آیا۔ آگے سمندر اور پیچھے دشمن کا لشکر دیکھ کر بنی اسرائیل گھبرا گئے۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ "میرا رب میرے ساتھ ہے، وہ ضرور راستہ نکالے گا۔" اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حضرت موسیٰ اپنا عصا سمندر پر ماریں۔ جیسے ہی عصا مارا گیا، سمندر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور درمیان میں خشک راستہ بن گیا۔ بنی اسرائیل اس راستے سے بحفاظت گزر گئے، لیکن جب فرعون اور اس کا لشکر پیچھے آیا، تو سمندر دوبارہ بند ہو گیا اور سب غرق ہو گئے۔
یہ ایک عظیم معجزہ تھا جو بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، مگر اس کے باوجود ان کی طبیعتوں میں شکرگزاری کے بجائے شکوہ باقی رہا۔
---
3. بنی اسرائیل کی نافرمانیاں
الف. بچھڑے کی پوجا
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر اللہ سے کلام کرنے گئے، تو پیچھے سامری نامی شخص نے سونے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل کو کہا کہ یہی تمہارا معبود ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے ابھی ابھی سمندر کا معجزہ دیکھا تھا، وہ اس بچھڑے کی پوجا میں مشغول ہو گئے۔
ب. من و سلویٰ کی ناشکری
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آسمان سے من و سلویٰ جیسی نعمتیں عطا فرمائیں، مگر وہ اس پر قناعت نہ کر سکے اور دنیاوی کھانوں جیسے پیاز، دال، سبزیاں مانگنے لگے۔ انہوں نے کہا: "ہم ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے کھاتے تنگ آ گئے ہیں۔" یہ ناشکری ان کی فطرت میں شامل ہو چکی تھی۔
ج. جہاد سے انکار
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ارضِ مقدس (یروشلم) میں داخل ہوں اور جہاد کریں، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا: "اے موسیٰ! تو اور تیرا رب جا کر لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔" اس گستاخی اور بزدلی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس سال کے لیے صحرائے سینا میں بھٹکنے کی سزا دی۔
د. حضرت موسیٰ سے بدتمیزی
بنی اسرائیل بار بار حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرتے، ان کی باتوں کو جھٹلاتے، اور بعض اوقات ان سے گستاخانہ کلام بھی کرتے۔ انہوں نے پانی کے لیے بھی مطالبہ کیا تو حضرت موسیٰ نے عصا پتھر پر مارا جس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے، ہر قبیلے کے لیے ایک۔ پھر بھی وہ مطمئن نہ ہوئے۔
---
4. اللہ تعالیٰ کے انعامات اور بنی اسرائیل کی بے قدری
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی قیادت عطا کی، ان میں انبیاء مبعوث فرمائے، آسمانی کتابیں عطا کیں (تورات)، مگر وہ ان پر بھی مکمل عمل نہ کر سکے۔ انہوں نے دنیاوی مفادات کے لیے اللہ کے احکامات میں تبدیلیاں کیں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اے بنی اسرائیل! میرے ان انعامات کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔ اور (دیکھو) کہ میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت دی۔" (البقرہ: 47)
---
5. بنی اسرائیل سے عبرت کا پیغام
بنی اسرائیل کی تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صرف معجزات دیکھ لینے سے ایمان کامل نہیں ہوتا، بلکہ دل کی اصلاح، شکرگزاری اور اطاعت لازم ہے۔ آج بھی اگر ہم اللہ کی نعمتوں کے باوجود ناشکری کریں، عبادات میں کوتاہی کریں، اور دنیا کو دین پر ترجیح دیں تو ہماری حالت بھی وہی ہو سکتی ہے جو بنی اسرائیل کی ہوئی۔
---
نتیجہ:
بنی اسرائیل کا قصہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک زبردست سبق ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کریں، اس کے احکامات کی پیروی کریں اور اپنے نبیوں کی اطاعت کریں۔ اگر ہم بھی بنی اسرائیل کی طرح غفلت، ناشکری اور نافرمانی کریں گے تو اللہ کا عذاب کسی بھی وقت نازل ہو سکتا ہے۔
اللہ ہمیں اپنے انعامات کی قدر کرنے، شکر ادا کرنے اور اس کی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Comments
Post a Comment